زادِ رہ پاس نہ معلوم کدھر جانا ہے |
ہم سفر کوئی نہ رہ رو ہے ، مگر جانا ہے |
آپ کہتے تھے ہمیں پھول سو لازم ٹھہرا |
پھول کو ٹوٹ کے ہر سمت بکھر جانا ہے |
آج ہے اس مہِ کامل کی زیارت کرنی |
کوچہ ءِ یار میں پھر بارِ دگر جانا ہے |
ذکر سنتے تھے جو دریائے محبت بارے |
اب اسے جانچنا ہے ، اس میں اتر جانا ہے |
ان کے خوابوں میں چلے آنے کو آسیؔ ہم نے |
اپنی پوشیدہ بھلائی کا ثمر جانا ہے |
معلومات