نہ حرفِ تمنا، نہ کوئی شکایت
کہ اب دل میں کچھ بھی نہیں ہے بقایا
وہی چاندنی ہے، وہی چاند تارے
مگر کوئی منظر نہیں ہے پرایا
عجب طور ہیں اب، عجب رسمِ الفت
کہ خود کو ہی ہم نے بہت آزمایا
نہ آئی وہ راحت، نہ آئی وہ منزل
کوئی کام دل کو نہیں راس آیا
یہاں کون اپنا، یہاں کون پردیسی
کوئی بھید اب تک سمجھ میں نہ آیا
بہت ہم نے چاہا، بہت دل جلایا
کوئی دردِ دل اب نہیں ہے چھپایا
غموں نے ہمیں اب بہت آزمانا
کوئی اب تو شکوہ نہیں ہے خدایا
'ندیم' اب یہ سوچا، 'ندیم' اب یہ جانا
کہ دل کا ٹھکانہ نہیں ہے سرایا

0
7