| آپ نگاہِ مست سے سنگ کو آب کیجیے |
| تھامیے آب ہاتھ میں اور شراب کیجیے |
| کارِ وفا کا جب نہیں کوئی صلہ جنابِ عشق |
| عبد نیا تلاشیے، میرا حساب کیجیے |
| آ ہی گئے ہیں آپ تو اتنا کرم کہ دو قدم |
| چل کے ہمارے ساتھ دل سب کے کباب کیجیے |
| چائے میں مت ملائیے شکّر کہ ہے ضرر رساں |
| پاس مٹھاس واسطے اپنا لعاب کیجیے |
| ہم نے کہا کہ آپ کے ہونٹوں سے ایک کام ہے |
| بندِ نقاب کھول کر بولے! جناب! کیجیے |
| تہمتِ زہد لے کے ہم بیٹھے ہوئے ہیں منتظر |
| کچھ تو قریب آئیے ، کچھ تو خراب کیجیے |
| دال نہیں جناب کی گلنے کی بزمِ حسن میں |
| اٹھیے نشست چھوڑیے، بند کتاب کیجیے |
معلومات