| یاد ہر ایک ہمیں وہ حسیں ساعت رہ گئی |
| آنکھوں کے در پہ سمندر کی علامت رہ گئی |
| سارے الفاظ مخالف میں تمہارے تھے مگر |
| جب ہوئے روبرو لہجوں میں محبت رہ گئی |
| بے اثر دستکیں فریاد صدائیں ہیں سبھی |
| غیر کے کھیل میں اپنوں میں رقابت رہ گئی |
| کم کسی طور نہیں لفظ ہیں نشتر سے کہیں |
| درد خاموش ہے زخموں کو شکایت رہ گئی |
| جانے والے کہ تمہیں ہم نے دیا راستہ ہے |
| فاصلے مٹ نہ سکے درمیاں تہمت رہ گئی |
| چین ہر چند کہ ملتا نہیں ہے خواہشوں کو |
| دل کو تقدیر کے لکھے پہ قناعت رہ گئی |
| منتظر راہِ محبت میں صنم مدتوں سے |
| تم نظر پھیرو تو مانیں کہ عداوت رہ گئی |
معلومات