| اپنے امیرِ شہر کا یہ اعلان ہوا خاموش رہو |
| گھر لٹ جائے لٹنے تو تم بہرِ خدا خاموش رہو |
| امن کے رستے پر چلنا ہے جنگ نہیں کرنی بالکل |
| بھوکا ، بے گھر یا ہو جاؤ تم ننگا خاموش رہو |
| ڈھونڈ رہے ہو اپنا چارہ ، جو کہ کہیں موصول نہیں |
| ہاتھ کٹا یا سر پھوٹا یا خون بہا خاموش رہو |
| اک دن سب کچھ کھل جائے گا ظاہر ، باطن ممکن ہے |
| مت بولو ہے کون یہاں پر کھوٹا کھرا خاموش رہو |
| باغی ہو بے خوف ہو تم ، کیا جان نہیں پیاری تم کو |
| حاکم نے یہ ڈر دلوایا اور کہا خاموش رہو |
| سب دیکھو آنکھوں سے اپنی نا انصافی ، بے رحمی |
| لیکن خالد عہد ستم میں سنگ نما خاموش رہو |
معلومات