| ہماری جان کو جس نے فقط بے جان سمجھا تھا |
| ہماری سادگی ہم نے اُسے بھگوان سمجھا تھا |
| تمنا جو بھی ہم نے کی اسے خِلجان سمجھا تھا |
| ہمیشہ ہی ہمیں اس نے بہت نادان سمجھا تھا |
| وہ جس کے پیار میں ہم سانس کی مالائیں جپتے ہیں |
| ضرورت جب پڑی اس کی ہمیں انجان سمجھا تھا |
| کسی کا ساتھ ہم نے درد کادرمان سمجھا تھا |
| مگر یہ ساتھ دینا اس نے بس احسان سمجھا تھا |
| سنائی جب غزل ان کو پریشاں ہو کے وہ بولے |
| بڑی لمبی غزل ہے میں اسے دیوان سمجھا تھا |
| جو آکے بیس دن سے گھر پہ دھرنا دے کے بیٹھے ہیں |
| میں ان کو تین دن کے واسطے مہمان سمجھا تھا |
| طاہرہ مسعود |
معلومات