فاعِلاتن فَعِلاتن فَعِلاتن فَعِلن
منظرِ بزم دکھانے ہمیں لایا نہ گیا
تذکرہ میرا سرِ بزم سنایا نہ گیا
میری روداد سناتے تو قیامت ہوتی
خامۂ اشک روانی کو دکھایا نہ گیا
وہ محبت میں مری سود و زیاں لے آئے
دل جو سویا تھا لیے خواب جگایا نہ گیا
اسنے دیکھا بھی مگر دیکھکے پرواہ نہ کی
گزرا جب ان کے مقابل تو بلایا نہ گیا
ڈرے رہتا ہے مرا دل جہاں کی نظروں سے
اک نظر ایسی پڑی پھر سے بسایا نہ گیا
میں نے دیکھا تو شکایت کی ہے یلغار ہوئی
ایک لمحہ بھی وہ نظروں میں سمایا نہ گیا
اس طرح کر دیا گھائل مجھے اشکوں نے ترے
جی جو اچٹا تو کسی طور منایا نہ گیا
سرِ ارشد کو درِ یار پہ رہنے دے نگوں
دل تھا خوابیدۂ عشاق اٹھایا نہ گیا
مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی

0
86