| جس وقت بھی وہ چاند کو دیکھے گا پلٹ کر |
| چپ چاپ قمر ابر میں چھپ جائے گا ہٹ کر |
| ہمراہ بھلے عقل کو رکھ راہِ جنوں میں |
| پر جیسا وہ کرنے کو کہے ، اس کا الٹ کر |
| کر صرفِ نظر آبلہ ءِ پا سے وفا کیش |
| منزل کا نشاں پائے گا خاروں سے نبٹ کر |
| یوں جاگتے کٹنے کی نہیں ہے شبِ ہجراں |
| سو جا تو کسی یاد کے پیکر سے لپٹ کر |
| چاہت کے سفر میں تو فراموشِ بدن رہ |
| انمول بنے گا تو اسی دھول میں اٹ کر |
| ہوگا نہ وہاں جرم و خطا کا کوئی احساس |
| دیکھیں گے سرِ حشر مری جاں تجھے ڈٹ کر |
| دکھنے میں قمرؔ ؔقد ہے کوئی پانچ سے اوپر |
| حیرت ہے کہ رہتا ہے مرے دل میں سمٹ کر |
معلومات