| کوہ فاراں پر دمکتی ہے جو طلعت نور کی |
| کل زمین و آسماں پر ہے حکومت نور کی |
| گلستانِ انبیا کا آخری چٹکا گلاب |
| اب نہ بدلی جائے گی راہِ شریعت نور کی |
| تم نے اے صدیق جانا سب سے بڑھ کر نور کو |
| پر نہ تم بھی جان پائے کل حقیقت نور کی |
| ایک قطرے کے سوالی کو سمندر بخش دیں |
| ساری دنیا سے نرالی ہے طبیعت نور کی |
| ایک ادنیٰ امتی بھی سقر کا ایندھن نہیں |
| جوش پر آنے ہی والی ہے شفاعت نور کی |
| چیر دے مہ کا کلیجہ مہر آئے لوٹ کر |
| ان کی انگشتِ مبارک میں ہے طاقت نور کی |
| پھر اگر دو ہاتھ اٹھا دیں کیا نہیں ہو جائے گا |
| ایک دن سب پر عیاں ہوگی یہ قدرت نور کی |
| ٹکٹکی باندھے کسی سے دیکھنا ہو کیا سکا |
| روئے انور پر درخشاں ہے ملاحت نور کی |
| وہ جہنم میں گیا جو خود پہ کرتا ہے گماں |
| ہاں جہنم میں گرائے گی عداوت نور کی |
| پیش ہونا ہے دکھانا ہے انہیں چہرہ ابھی |
| جب لگائے گا خداوندا عدالت نور کی |
| کون ہے جو ان کے ہوتے بال بھی باکا کرے |
| جس کو حاصل ہوگئی ہوگی حمایت نور کی |
| جب تلک ایماں سلامت ہے یہ جامی خیر سے |
| اے خدا باقی رہے دل میں حمیت نور کی |
معلومات