| آگئی جب زندگی میری، بلا کے سامنے |
| مسئلے سب رکھ دیئے مشکل کشاؑ کے سامنے |
| بس سلونی زیب دیتا ہے اُسی کی ذات کو |
| خلقتِ دنیا ہوئی جس مرتضیٰؑ کے سامنے |
| استخارہ جب کیا ہے فاطمیؑ تسبیح سے |
| یوں ہوا محسوس جیسے ہوں خدا کے سامنے |
| کر رہے تھے ناز آبِ زم زم و کوثر بہت |
| رکھ دیا اشکِ عزا ہم نے اُٹھا کے سامنے |
| یا الٰہی اک سفر ایسا بھی لکھ تقدیر میں |
| دم نکل جائے ہمارا کربلا کے سامنے |
| اسلئے رُخ دھو رہے ہیں خون کے ماتم سے ہم |
| سرخرو پہنچیں سرِ محشر خدا کے سامنے |
| ہٹ جا مفتی راستے سے میں ہوں مجنون الحسینؑ |
| ٹک نہیں پائے گا تو پاگل ہوا کے سامنے |
| زندۂِ جاوید کا ماتم نہیں کرتے ہیں ہم |
| ہے اگر ہمت تو کہنا مصطفیٰؐ کے سامنے |
| درجہ بندی ظالموں کی از سرِ نو کیجئے |
| پیاس کا منکر ہے اظلم حرملہ کے سامنے |
| زندگی دشوار ہوتی جا رہی ہے یا امامؑ |
| آئیے اب پردۂِ غیبت ہٹا کے سامنے |
| سرورؑ و عباسؑ سا جب کوئی ہو سکتا نہیں |
| کربلا ہو اب کوئی کیا کربلا کے سامنے |
| خلد میں زیرِ صدارت مصطفیؐ کے اے ظہیرؔ |
| پڑھنا یہ اشعار تم آل عباؑ کے سامنے |
معلومات