تڑپ کو ہم نوا اور جذبہ دل تم کربلا کرلو
ذرا کچھ دیرکو ماضی سے بھی کچھ سلسلہ کرلو
سیاہی جو نگل جاۓ سراسر روشنی کو بھی
توپھرحق ہےکہاں باطل ہے کیا خود فیصلہ کرلو
عبادت نامکمّل ہے ، ادھورا ہے ہراک سجدہ
اساس ذہن ودل کو بھی نہ جب تک مبتلا کرلو
تھکن کو پاؤں کی بیڑی بنا لینے سے کیا ہوگا
سفر آسان ہوجائیگا ، تھوڑا حوصلہ کرلو
یہی تنہائی تم کو لے کے پھر جاےگی منزل تک
جنوں کو راہبر کرلو ، خودی کو ہمنوا کرلو
بلندی بھی جھکےگی حوصلے کےسامنے بیشک
جو خو پرواز کو ، کاوش کو اپنا مشغلہ کرلو
سلگ اٹھے ہراک احساس ، ہراک زخم کھل اٹھے
اگر اپنی تمناؤں سے بھی کچھ رابطہ کرلو

0
14