غموں کے دھکتے ہیں آلاؤ بڑا اندھیرا ہے
نظر نظر سے نہ چراؤ بڑا اندھیرا ہے
پیام مجھ کو نہ دو اک اجل کے آنے کا
نہ زہر مجھ کو پلاؤ بڑا اندھیرا ہے
مرے ہیں چاروں طرف کارواں محبت کے
یونہی نہ اشک بہاؤ بڑا اندھیرا ہے
دیار جاں میں ہے آمد کسی مسیحا کی
ابھی نہ خاک اڑاؤ بڑا اندھیرا ہے
امید باقی ہے گل کی خزاں کے موسم میں
نہ ٹھیس دل کو لگاؤ بڑا اندھیرا ہے
قدم قدم پہ بناؤ محل ستاروں کے
زمیں چمن کی بھی سجاؤ بڑا اندھیرا ہے
اٹھے فلک پہ ہیں شاہد کہیں اجالے سے
سحر بلا کے لے آؤ بڑا اندھیرا ہے

0
31