| پہلے نفس کی قید سے خاکی بدن کھلا |
| پھر جا کہیں زمین پہ کورا کفن کھلا |
| صد شکر آج دونوں میں کچھ گفتگو ہوئی |
| مدت کے بعد جسم پہ یہ پیرہن کھلا |
| دیکھا گیا ہے شہر میں ماضی کا شاہ زاد |
| بالوں میں گرد کرتے کا ہر اک بٹن کھلا |
| یوں لگ رہا تھا جیسے کہ تم سامنے ہی ہو |
| مجھ پر ترا خیال شکن در شکن کھلا |
| حیران مت ہو پیارے یہ آنکھوں کا شہر ہے |
| اس شہرِ ماورا میں ہے خوابوں کا دھن کھلا |
| آدم کا حال کیا ہے یہ اُس ذات کو پتہ |
| ماضی میں اس پہ دیکھیے باغِ عدن کھلا |
معلومات