ملا ہے مجھ کو عشق کا صلہ کمالِ کربلا
دیا جلا ہے درد کا شبِ وصالِ کربلا
نہ پوچھ کیسے گزری مجلسِ غریباں آج کی
ٹپک رہا تھا آنکھ سے لہو مثالِ کربلا
کبھی تو ہوگا میری آنکھ کے نصیب میں گزر
کہ دیکھ لوں قریب سے میں بھی جمالِ کربلا
وہ جس کی خاکِ پاک سے ہے اُٹھ رہی صدائے حق
جھکا ہے ہر ولی کا سر وہاں حلالِ کربلا
کسی کی تو نگاہ میں تھے اونچے تخت و تاج و زر
مری نگاہ میں بسا فقط خیالِ کربلا
قلم کی آنکھ سے تو لہو لہو ہے ٹپک رہا
نہیں ہے حوصلہ بیاں کروں میں حالِ کربلا

0
12