| زندگی کو حیرت میں ڈال کر |
| موت کو پریشان کر گیا |
| لہو سے جلا کر چراغِ راہ |
| ظلمتوں کو حیران کر گیا |
| ہائے جانا ماجد کا اس طرح |
| شہر بھر کو سنسان کر گیا |
| زندگی سے ناراض بھی رہ کر |
| زندگی پہ احسان کر گیا |
| آندھیوں کی زد میں بھی رہ کے وہ |
| حوصلوں کو چٹان کر گیا |
| ہونٹوں کی ہنسی چھین کر گیا |
| آنکھوں کو بھی گریان کر گیا |
| غم کو سینے میں ہی چھپا کے وہ |
| یادوں کو پریشان کر گیا |
| کیا چراغِ الفت تھا، دیکھ لو |
| محفلوں کو ویران کر گیا |
| وہ سخنوری بخش کر مجھے |
| مجھ پہ ایک احسان کر گیا |
| زخم دل کے سہتا رہا مگر |
| وہ ہنسی کو قربان کر گیا |
| محفلوں کی رونق تھا جو کبھی |
| خامشی کو عنوان کر گیا |
معلومات