زندگی سے اب گلا کون کرے
اب یوں بچھڑ کے ملا کون کرے
دنیا کو کب فرق پڑتا ہے کوئی
دنیا کو اب مبتلا کون کرے
تیری اداؤں پہ سب مرنے لگے
مرنے پہ میرے مرا کون کرے
نشے میں تنہائی کے جکڑے ہیں ہم
میل ملاپ اب بھلا کون کرے
عرصے سے یہ ہمسفر ہیں مرے غم
خود سے اب انکو جدا کون کرے
کب سے ہی راہیں بدل بیٹھے ہیں وہ
گھر سے نکلتے سجا کون کرے
حال یہ دل کا چھپا لیتے ہیں ہم
یوں انہیں اب اور خفا کون کرے
عشق ہے اب اپنی تنہائیوں سے
روز یونہی اب ہنسا کون کرے

0
76