| مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن |
| جب سے درود پاک کا تحفہ ملا مجھے |
| سچ ہے کہ رحمتوں کا خزینہ ملا مجھے |
| ملتی رہیں ہیں شوق کو بیداریاں مری |
| جب سے عروجِ عشق کا مژدہ ملا مجھے |
| بتلاؤں کیا خمار ہے ان کے درود میں |
| اک کہنہ جستجو کا ہے ورثہ ملا مجھے |
| جتنی امید تھی مری اس کے سوا کہیں |
| میری طلب سے بھی کہیں عمدہ ملا مجھے |
| ان کے خیال میں کہیں بھٹکا نہیں کبھی |
| میں جس طرف گیا مرا رستہ ملا مجھے |
| اب منزلِ ابد کی جو پائی ہے روشنی |
| دنیا سے اعلیٰ آپ کا اُسْوَہ ملا مجھے |
| آؤ طلب کے مارو کہ شاداب دل کریں |
| ارشدؔ کہے قرار کا تحفہ ملا مجھے |
| مرزاخان ارشدؔ شمس آبادی |
معلومات