یہ راہِ اہلِ عشق نہایت مہیب ہے
میں کیسے آ گیا سرِ منزل ، عجیب ہے
موجود وہ کلی ہے نہ ہی گل ہے آس پاس
جانے کہاں سے آ رہی بوئے حبیب ہے
دیتا ہو مشورے جو محبت کے وعظ میں
بولو کسی محلے میں ایسا خطیب ہے
صیاد اس پرندے پہ ہیں سب فریفتہ
یہ کون جانتا ہے وہ کس کا نصیب ہے
جس کو نہیں ذرا بھی مسیحائی سے غرض
زخمِ جگر کو ایسا میسر طبیب ہے
دیکھا تو یہ کھلا کہ ہے وہ شوخ نغمہ خواں
آواز سے لگا تھا مجھے عندلیب ہے
جادو کوئی ضرور ہے اس ماہ رخ کے پاس
باوصف دور ہونے کے لگتی قریب ہے
مضمونِ کائنات الگ باندھ کر دکھا
معلوم ہو کہ تُو بھی ہنر مند ادیب ہے
کوئی نہیں جسے تری قربت نہیں پسند
سارا زمانہ یعنی قمرؔ کا رقیب ہے

28