کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں |
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں |
شاخِ جاں پر کھلے ہیں وجد کے پھول |
اس نے یوں کر لیا ہے گھر مجھ میں |
یا تو کچھ بھی نہیں رہا باقی |
یا سمٹ آیا بحر و بر مجھ میں |
میں کہ اک سانحہ ہوں لمحوں کا |
ہوتا کیا کیا ہے لمحہ بھر مجھ میں |
میری ہی جستجو میں شام و سحر |
پھرتا ہے کون در بہ در مجھ میں |
اب وہ آرامِ جاں وہ نیند کہاں |
کھلتے ہیں زخم رات بھر مجھ میں |
بس کنارے کنارے چلتی ہو |
کبھی تو میری جاں اتر مجھ میں |
عشق خنجر چلا ہے ایسے کہ بس |
خوں سے ہے ذرہ ذرہ تر مجھ میں |
موسمِ گل کے باوجود رہے |
باغ کتنے ہی بے ثمر مجھ میں |
مجھ میں ہی پھر ہوا یہ قصہ تمام |
مل گیا اپنا ہم سفر مجھ میں |
سر جکیں گے ہزار قدموں میں |
سایہ بن کے کبھی ٹھہر مجھ میں |
اب تو آئے کوئی مرے اندر |
اب تو کھلنے لگے ہیں در مجھ میں |
اب تو مجھ میں کوئی نہیں رہتا |
اب تو کر کوئی شب بسر مجھ میں |
معلومات