کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں
شاخِ جاں پر کھلے ہیں وجد کے پھول
اس نے یوں کر لیا ہے گھر مجھ میں
یا تو کچھ بھی نہیں رہا باقی
یا سمٹ آیا بحر و بر مجھ میں
میں کہ اک سانحہ ہوں لمحوں کا
ہوتا کیا کیا ہے لمحہ بھر مجھ میں
میری ہی جستجو میں شام و سحر
پھرتا ہے کون در بہ در مجھ میں
اب وہ آرامِ جاں وہ نیند کہاں
کھلتے ہیں زخم رات بھر مجھ میں
بس کنارے کنارے چلتی ہو
کبھی تو میری جاں اتر مجھ میں
عشق خنجر چلا ہے ایسے کہ بس
خوں سے ہے ذرہ ذرہ تر مجھ میں
موسمِ گل کے باوجود رہے
باغ کتنے ہی بے ثمر مجھ میں
مجھ میں ہی پھر ہوا یہ قصہ تمام
مل گیا اپنا ہم سفر مجھ میں
سر جکیں گے ہزار قدموں میں
سایہ بن کے کبھی ٹھہر مجھ میں
اب تو آئے کوئی مرے اندر
اب تو کھلنے لگے ہیں در مجھ میں
اب تو مجھ میں کوئی نہیں رہتا
اب تو کر کوئی شب بسر مجھ میں

0
2
98

کوئی منزل نہ رہ گزر مجھ میں
بے سفر کرتا ہے سفر مجھ میں

آغازِ سفر اچھا ہے

بہت بہت شکریہ محترم