اتنا سا اعتبار کر لینا
بس ذرا انتظار کر لینا
اور تو کہنے کو نہیں کچھ بھی
راستہ اختیار کر لینا
شام ہے اور شام میں خود کو
بے سبب اشکبار کر لینا!
جانیے آرزو کا ظلم کہ پھر
آرزو بار بار کر لینا
دخل اندازی تو نہیں پھر بھی
کہیں مجھ کو شمار کر لینا
اک تصور میں سوچتے رہنا
بے طرح خود کو خوار کر لینا!
زیبؔ دل پھر سے بجھتا جاتا ہے
کوئی حل اب کی بار کر لینا!

0
15