| جس محبت کیلئے زہر پڑا تھا کھانا |
| کیا خبر تھی کہ اسے توڑ کے دل ہے جانا |
| لاکھ طوفان بھی آجائیں اگر راہوں میں |
| موت کے خوف کو خاطر میں کبھی نہ لانا |
| شک کی نظریں میں تعاقب میں بڑی مدت |
| آپ کا ٹھیک نہیں روز گلی میں آنا |
| میں تو پہلے ہی سے کہتا تھا کہ باز آجاؤ |
| دلِ نادان مگر ایک نہ میری مانا |
| واضع طور پر ہر چیز ابھر آئے گی |
| غم کے دریا میں کبھی ڈوب کے غوطے کھانا |
| کیا ہوا وقت کے ہاتھوں میں اگر پتھر ہیں |
| جانِ جاں ٹوٹ کے اندر سے بکھر نہ جانا |
| دست بستہ یہ گزارش ہے مری اے عاصم |
| جا کے پردیس کہیں بھول نہ مجھ کو جانا |
معلومات