نیند راتوں کو مری آنکهوں سے پهر جانے لگی
رفتہ رفتہ یاد اسکی پهر مجهے آنے لگی
وہ نگاہ ناز کا پہلا اشارہ اور پهر
یوں ہوا کچه دیکه کر مجهکو وہ شرمانے لگی
دهوپ تو بهرپور اس آنگن میں آتی ہے مگر
بالا خانے پر وہ کیوں ملبوس پهیلانے لگی
اسکی شوخی کا اثر تها یا مرا شوق نظر
کیوں نظر اسکی نظر سے میری ٹکرانے لگی
مل گئی تحریک میری شاعری کو، فکر بهی
جس طرف اب تک نہ پہنچی تهی نظر جانے لگی
اس کے لب عنوان میری شاعری کا بن گئے
وہ بهی میرے شعر دهن میں پیار کی گانے لگی
قربتیں اتنی بڑهیں دونوں دلوں کے درمیاں
دل دهڑکنے کی صدا کانوں سے ٹکرانے لگی
پیار میں سرشار ہوکر آگیا ایسا نکهار
آئنے میں دیکه کر وہ خود کو شرمانے لگی
یہ تعلق تلخیوں میں اس طرح بدلا ظہیر
خود ہمارے خواب کو تعبیر جهٹلانے لگی

0
4