| یہ کس کے غم نے ہمیں درد سے ملایا ہے |
| جہاں سے درد ملا دل وہیں پہ پایا ہے |
| نہ قرب مل سکا ہم کو، نہ دور رہ پائے |
| عجب فسانہ محبت کا یہ بنایا ہے |
| گزر رہے ہیں جہاں سے، وہاں بہاریں ہیں |
| کسی نے جھاڑے کے موسم میں گل کھلایا ہے |
| وہ اپنی ضد پہ اڑا ہے تو ہم وفا پہ اڑے |
| محبتوں کی یہ ضد نے عجب ستایا ہے |
| وہ خواب جیسا ہے، پر خواب سا نہیں لگتا |
| کسی چراغ نے جیسے دیا جلایا ہے |
| یہ درد، عشق کا لمحہ، یہ شوق، قربت کا |
| کسی نظر نے ہمیں پھر سے ور غلایا ہے |
| نہ اس کو روک سکے ہم، نہ خود ہی بڑھ پائے |
| عجیب دل نے مرا حال یہ بنایا ہے |
| کبھی مکیں اُسی دل کے تو ہم بھی تھے عاصم |
| کسی کو ہم نے فقط یاد ہی دلایا ہے |
معلومات