| تیرا مرا اتحاد بھی ہو نہ سکا |
| دل اتنا تو با مُراد بھی ہو نہ سکا |
| تاریخ داں بھی سبھی ہیں خاموش یہاں |
| تجھ سا کوئی تیرے بعد بھی ہو نہ سکا |
| اپنے تئیں کوشش کی سبھی تم نے مگر |
| یہ بات الگ میں شاد بھی ہو نہ سکا |
| پابند سماجی رُتبے کا ہو گیا وہ |
| سو عشق کی روئداد بھی ہو نہ سکا |
| گر اُس نے خریدا ہے مرا آشیاں یہ |
| دل اُس کی تو جائداد بھی ہو نہ سکا |
| ہیں ایک لڑی میں گر پِروئے ہوئے سب |
| مابین کِہ و مِہ تضاد بھی ہو نہ سکا |
| گو مِؔہر وہ کرتے رہے ہیں بیخ کنی |
| حربہ وجہِ عِناد بھی ہو نہ سکا |
| --------------***-------------- |
معلومات