کیا ہے کمرے کے باہر نہیں معلوم
باغ، دشت، سمندر نہیں معلوم
/
آتا ہے دلِ آوارہ سرِ صبح
ہوتا ہے کہاں شب بھر نہیں معلوم
/
پوجتا ہوں شب و روز جسے میں
وہ خدا ہے کہ کافَر نہیں معلوم
/
وہ ازل سے ہی خاموش پڑا ہے
کون ہے مرے اندر نہیں معلوم
/
چھایا جس کا فسوں چاروں طرف ہے
ہے کہاں وہ فسوں گر نہیں معلوم
/
چاروں اور تھیں دیواریں مگر آج
یہ کہاں سے کھلا در نہیں معلوم
/
میں کہانی کا منظر ہوں عیاں ہوں
ہاں مگر پسِ منظر نہیں معلوم
/
کیسے ہے ہرا اس فصلِ خزاں میں
ایک سروِ صنوبر نہیں معلوم
/
خود سے بھی تھا میں رم، جانے میں کیسے
آ پڑا ترے در پر نہیں معلوم
/
ایسی خانہ خرابی سے رفیقو
کب یہ دل ہوا خوگر نہیں معلوم

0
30