| یہ جہاں ظلم کا جنگل ہے، عدالت بے کار |
| ہر طرف خوف کا عالم ہے، صداقت بے کار |
| جیت جاتی ہے ہمیشہ ہی غرض کی مٹھی |
| اب تو کمزور کی آواز، شکایت بے کار |
| چند سِکوں پہ بِکے لوگ، بے حس و بے ضمیر |
| حق کی میزان پہ رکھی ہوئی قیمت بے کار |
| کیسے انصاف کرے خون کے دھبوں کا یہاں |
| اب تو خود عدل کی آنکھوں کی بصارت بے کار |
| ایسے ادوار میں کیسے کوئی حق مانگے گا |
| جب کہ قانون کے کاغذ کی عبارت بے کار |
| اب بھی ہم سوئے رہے، زخم تو بڑھتے رہیں گے |
| ورنہ تاریخ کے اوراق میں عبرت بے کار |
| جس ریاست میں نہ عزت ہو غریبوں کی وہاں |
| ایسی سرکار بھی بیکار ،حکومت بے کار |
| سید گلزار عاصم |
معلومات