وہ جو آفاق کی سرحد سے گزر جاتے ہیں
جانے وہ لوگ نگاہوں سے کدھر جاتے ہیں
اُن کی دہلیز پہ جانے کے یہی ہیں آداب
جو بھی جاتے ہیں لئے دیدۂ تر جاتے ہیں
سامنے آگ کا دریا ہو کہ غم کا صحرا
پاؤں رکتے نہیں بے خوف و خطر جاتے ہیں
جن کی محفل میں نہیں اہلِ ہنر کی توقیر
اُن کی محفل میں کہاں ہم اے جگر جاتے ہیں
ہم تو خائف نہیں امواجِ بلا سے یارو
اپنی کشتی میں لئے ہم تو بھنور جاتے ہیں
رہ گزارِ غمِ ہستی ہے بہت ہی دشوار
ہم کو معلوم تو ہے دوست مگر جاتے ہیں

0
10