رنگ وہ زندگی میں پھر سے سہانے آتے
خط لکھے ان کے ہمیں پھر سے پرانے آتے
خوشبو پھولوں سے چرا کے جو ہوائیں آتیں
ہم پہ وہ پہلی محبت کے زمانے آتے
وہ ذرا تیکھی سی نظروں سے ہمیں دیکھتے جو
اپنے حصے بھی کئی کھوئے خزانے آتے
باقی پہچان نہیں اپنی کہو لوگوں سے
اس بہانے ہی سہی یار منانے آتے
ہاتھ میں کب سے لئے بیٹھے ہیں ساغر دل کا
کاش آنکھوں سے وہ مے ہم کو پلانے آتے
مانتے ہم بھی کئے وعدوں کی سچائی کو
ڈوبتا چاند بھی گر شب کو سجانے آتے
ہجر میں سرد ہوئے جاتے ہیں جذبے شاہد
ایسی رت میں وہ کوئی آگ لگانے آتے

0
34