تاراج جب سے یہ مرا شہرِ جُنُوں ہوا
ناحق گلی گلی میں گلابوں کا خوں ہوا
ہم کس سے پوچھیں شہر کے اُجڑنے کا سبب ؟
جب پاسباں کے ہاتھ سے حالِ زبوں ہوا
پھیلی ہوئی ہے چاروں طرف جو یہ خامشی
اُس کی نظر سے کون سا ایسا فسُوں ہوا ؟
چارہ گرانِ شہر کھڑے ہیں جو ہر طرف
اب کے نجانے کون سا دردِ دروں ہوا ؟
کیسا یہ دَورِ اِبتلا آیا ہے اب جمالؔ
بھائی کے ہاتھ سے ہی جو بھائی کا خوں ہوا

14