یہ کہسار و دریا، یہ دشت و چمن،
ہر اک شے میں پنہاں، ہے رازِ کہن۔
سحر کا تبسم، شفق کی بہار،
یہی زندگی کا، ہے سوزِ سخن۔
خودی کو جو سمجھے، وہ مردِ خدا،
اسی کی نظر میں، ہے ہر انجمن۔
یہ خاموش منظر، یہ سارا جہاں،
کوئی دیکھتا ہے، یہ کس کا چلن؟
نہ کر اس پہ تکیہ، یہ دنیا ہے رنگ،
یہ مٹی کا پیکر، یہ جھوٹا بدن۔
جہاں میں جو باطل، سے ٹکرائے دل،
اسی دل کی دنیا، اسی کا چمن۔
یقیں سے بدل دے، جہاں اپنا تو،
یہی ہے شریعت، یہی ہے سمن۔
ندیم اب نہ ڈر تو، زمیں آسماں،
یہی ہے یقیں کا، نیا اب چمن۔

0
4