| دیکھی ہے میں نے اک آڑی ترچھی مورت |
| اس اپسرا کی ہر ادا میں مقید ان چھوئی لذت |
| کیسے قابو میں رہیں ہم، کیسے خود میں رہیں ہم |
| ان گنت ترنگیں ہیں امنگیں ہیں اور کچھ شہوت |
| دل اب چھوٹ گیا ہے حواس باختہ ہو کر ہم |
| کیسے رکیں ؟ ان لبوں پر مچل اٹھی پھر تراوت |
| بے ساختہ ہی سہی چوم نا لے کہیں اے وجود |
| یہ دعوت نظارہ ہاتھ، یہ سرمگیں پاؤں پھر یکلخت |
| جان جو تھی باقی کہاں رہی؟ اس ٹخنہ کے تل پہ |
| یہ حشر سامان ابھی ہے آگے مزہ بہ درجہ غایت |
| کاشف یہ حسن جاناں سم قاتل سے نہیں کم ہرگز |
| بن گیا اک اک لمحہ قیامت ، گھل گئی ہر جگہ حلاوت |
معلومات