| عطار سے دل کو قرار ملے، جیون کی خزاں کو بہار ملے |
| ہم بھول ہی جائیں غم اپنے، عطار سے ایسا پیار ملے |
| کیا چیز ہیں غم یہ دنیا کے، مل جائے مدینے کا جو غم |
| یہ غم بھی یہاں پر بٹتا ہے، ہر غم کا ہمیں غمخوار ملے |
| مَئِے عشقِ نبی کے دَور چلیں، اِس مَے کی مستی نرالی ہے |
| آجاؤ دیوانو پینے چلو، لو ساتھ میں جو مے خوار ملے |
| مُسکان میں گھول کہ لفظوں کو، تاثیر کا جام پلاتے ہیں |
| کیوں بخت نہ سنوریں گے اُن کے، اِس جام کا جن کو خُمار ملے |
| اس جام سے تَن مَن اُجلا ہو، اور راہِ ہدایت کُھل جائے |
| سینوں میں بَھرا ہو خوفِ خُدا، اور عشقِ شَہِہ ابرار ملے |
| بیدار عمل کا جذبہ ہو، نیکی کی دعوت دیتا رہے |
| بن جائے جو بھی مُرید اِن کا، اس جذبے سے سرشار ملے |
| غم زیرکؔ کے پھر مٹتے گئے، عطار کا دامن جب تھاما |
| آجاؤ غموں کے مارو تُم، ہر غم سے یہاں پہ فرار ملے |
معلومات