| یہ خاموش شب ہے، دھواں سا سماں |
| دلوں میں چھپی ہے کوئی داستاں |
| کہیں چاند تنہا، کہیں ہم خفا |
| بہت کچھ ہے جو رہ گیا بے زباں |
| تمہیں سوچنا اور ، تمہیں چاہنا |
| مگر وقت نے کر دیا بے اماں |
| یہ نیندیں بھی ہم سے خفا ہو گئیں |
| یہ آنکھیں بچھا لیں کوئی کہکشاں |
| دلِ بے سبب کو سکوں بھی نہیں |
| محبت تو اب ہو گئی رائیگاں |
| نہ حرفوں میں ڈھلتے تھے افشین درد |
| نہ شعروں میں ہوتا ہے سب کا بیاں |
| خود اپنے سے پوچھوں، میں ہوں یا نہیں |
| یہی اک خلش ہے، مرے جانِ جاں۔ |
| نہ آغاز اپنا، نہ انجام کچھ |
| بس اک راستہ ہے، نہ کوئی نشاں |
| یہ ہستی، یہ سایہ، یہ وہمِ وجود |
| ہے کیسی طلب، ہےیہ کیسا گماں |
| سوالوں میں الجھی ہوئی زندگی |
| نہ منزل، نہ رستہ، نہ کوئی مکاں |
معلومات