| وہ موسم ذوق کے، دلبر گئے کب کے |
| جو تھے کچھ لوگ زندہ مر گئے کب کے |
| نہیں آئے گا کوئی دل کی نگری میں |
| جنہیں آنا تھا وہ آ کر گئے کب کے |
| تو اب کیا ڈھونڈتا ہے ڈھونڈنے والے |
| وہ سب دل باختہ بے گھر گئے کب کے |
| تو بھی اب اوڑھ لے چادر سیاہی کی |
| وہ بادہ کش، شبِ سروَر، گئے کب کے |
| یہاں اب کچھ نہیں ہے دل لگانے کو |
| نظر والو، پری پیکر گئے کب کے |
| کوئی کیونکر یہاں آئے دلِ ناداں |
| وہ غافل راہی و رہبر گئے کب کے |
| جہانِ تیرگی کے راہرو جو تھے |
| وہ بزمِ شمع سے اٹھ کر گئے کب کے |
| دُکانِ دید اب تم بند ہی رکھنا |
| طلب گارِ جفا، سب مر گئے کب کے |
| کہ اپنے اپنے حصے کا وہ دکھ لے کر |
| سبھی فرقت کے مارے گھر گئے کب کے |
معلومات