| تجھے یکسر بھلایا جا رہا ہے |
| جگر کو آزمایا جا رہا ہے |
| ترا ہو کر میں تنہا ہو رہا ہوں |
| مرا اپنا بھی سایا جا رہا ہے |
| میں تجھ کو خود سے باہر لے چلا تھا |
| تو مجھ میں اور پایا جا رہا ہے |
| غزل تو اک بہانہ ہے پیارے |
| یہ حالے دل سنایا جا رہا ہے |
| مری تصویر مدھم ہو رہی ہے |
| مجھے جیسے مٹایا جا رہا ہے |
| ترے غم میں زہر آلود ہو کر |
| خوشی کا دن منایا جا رہا ہے |
| اعجاز احمد روانہ |
معلومات