| تجھ کو پانے کے لئے خود کو بھلا دیتے ہیں |
| بات کہنے کی ہے سن خود کو مٹا دیتے ہیں |
| کشتیِ عشق کی منزل ہے تو ہی جان وفا |
| اب اگر کہئے تو پتوار جلا دیتے ہیں |
| طوق الفت کا تو برسوں سے پڑا گردن میں |
| آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں |
| رخ پہ غازہ ملے مسرور نظر آتے ہیں |
| ہائے انداز یہ دیوانہ بنا دیتے ہیں |
| آپڑے آپ کے رستے میں فقط اس کے لئے |
| اپنی آنکھوں کو سرِ راہ بچھا دیتے ہیں |
| دعویٔ عشق کو انجام پہ لانے کے لئے |
| مثل پروانہ کے خود کو ہی جلا دیتے ہیں |
| اب بھی ذیشان کو بھولے نہیں وہ پیارے پل |
| یاد آتے ہی جو ہستی کو ہلا دیتے ہیں |
معلومات