تجھ کو پانے کے لئے خود کو بھلا دیتے ہیں
بات کہنے کی ہے سن خود کو مٹا دیتے ہیں
کشتیِ عشق کی منزل ہے تو ہی جان وفا
اب اگر کہئے تو پتوار جلا دیتے ہیں
طوق الفت کا تو برسوں سے پڑا گردن میں
آپ کہتے ہیں تو زنجیر ہلا دیتے ہیں
رخ پہ غازہ ملے مسرور نظر آتے ہیں
ہائے انداز یہ دیوانہ بنا دیتے ہیں
آپڑے آپ کے رستے میں فقط اس کے لئے
اپنی آنکھوں کو سرِ راہ بچھا دیتے ہیں
دعویٔ عشق کو انجام پہ لانے کے لئے
مثل پروانہ کے خود کو ہی جلا دیتے ہیں
اب بھی ذیشان کو بھولے نہیں وہ پیارے پل
یاد آتے ہی جو ہستی کو ہلا دیتے ہیں

247