| محبت سے مری پیاسی زمیں کو تر نہیں کرتا |
| وہ بارش پیار کی کرتا تو ہے ، جم کر نہیں کرتا |
| اگر انسان ہے وُہ ، کیوں محبت کا نہیں قائل |
| اگر انساں نہیں ہے ، کیوں وُہ برپا شر نہیں کرتا |
| بہت مغرور ہوتے ہیں حسیں لیکن تری مانند |
| خدا بن جائے ، یہ کوئی بتِ کافر ، نہیں کرتا |
| نہیں لگتے ارادے اُس کے میرا ساتھ دینے کے |
| وُہ اب تک آنکھ میں رہتا ہے، دل میں گھر نہیں کرتا |
| میں جب بھی عشق کرتا ہوں علیَ الاعلان کرتا ہوں |
| میں ایسے کام دُنیا سے کبھی ڈر کر نہیں کرتا |
| ادب ملحوظ رکھتا ہوں ترا دیوانگی میں بھی |
| میں تیرا ذکر کرتا ہوں تو سَر اوپر نہیں کرتا |
| کھلا چھوڑا نہیں تم نے ، معافی کا بھی دروازہ |
| کسی پر یوں خُدا بھی بند سارے در نہیں کرتا |
| مجھے تاریک لگتی ہے بھلے ہو چودھویں کی رات |
| وُہ خود جب تک مری جانب رُخِ انور نہیں کرتا |
| نگلنا بھی بہت مشکل اگلنا بھی نہیں آساں |
| نوالہ عشق کا ، عاشق جو خوں سے تر نہیں کرتا |
| مری فطرت ہے یہ مقبول، آنکھیں نم ہی رکھتا ہوں |
| دکھوں کو پالتا ہوں ، بحر کو میں بر نہیں کرتا |
معلومات