| عشق کے اعتبار سے مر گیا ہوں حسن |
| خود سے بھی اختیار سے مر گیا ہوں حسن |
| چاند تارے بھی اب تو مجھ سے خفا ہوئے |
| تیری یاد کے غبار سے مر گیا ہوں حسن |
| زندگی میں سکون کی جستجو تھی مگر |
| دھوپ کے اس دیار سے مر گیا ہوں حسن |
| اب نہ دل میں خلش رہی، نہ کوئی طلب |
| تیرے عہدِ انکار سے مر گیا ہوں حسن |
| خواب ٹوٹے تو جاں پہ بوجھ سا ہو گیا |
| یعنی اپنے وقار سے مر گیا ہوں حسن |
معلومات