ہر ہاتھ یدِ بیضا ہوا تو نہیں کرتا
ہر کوئی تو اب موسیٰؑ ہوا تو نہیں کرتا
ہر آنکھ میں خوابوں کا اُجالا نہیں ہوتا
ہر خواب تو یوسف سا ہوا تو نہیں کرتا
اک لمحۂ سجدہ بھی بدل دیتا ہے تقدیر
ہر سجدہ عبادت کا ہوا تو نہیں کرتا
ہر چہرہ تماشا ہے، حقیقت کے برعکس
ہر عکس بھی آئینہ ہوا تو نہیں کرتا
ہر بات میں امکانِ ولائت نہیں ہوتا
ہر اسم بھی اعظم سا ہوا تو نہیں کرتا
ہر لفظ میں تاثیر نہیں ہوتی ہے عاصم
ہر شعر بھی دریا سا ہوا تو نہیں کرتا

0
13