| توحید کے سبب تجھے سجدہ روا نہیں |
| میں نے وگرنہ عشق میں کیا کیا کیا نہیں |
| تم بھی وفا کو طاق پہ رکھ کر چلے گئے |
| میں نےبھی جام زہرکا اب تک پیانہیں |
| تم خوش لباس ہوگئے جب سےجدا ہوئے |
| مجھ سے ابھی تک اپنا گریباں سِلا نہیں |
| آئی نہیں پلٹ کے فقط میری ہی نگاہ |
| پہنچا جو تیرے در پہ ، وہاں سے ہٹا نہیں |
| یا مان لے،ہے تیرے بدن میں مری مہک |
| یا جھوٹ بول دے کہ تو مجھ سے ملا نہیں |
| کیاجانےکیا ہے مَے،یہ کہ تاثیرِ مَے ہے کیا |
| وُہ جس نے تیری آنکھ سے کچھ بھی پیا نہیں |
| کیسے ہوا تھاعشق یہ کیوں کر ہوا تھا جرم |
| ملتا کبھی بھی ایسی خطا کا سرا نہیں |
| سب ساتھ ہیں رقیب کے جتنے طبیب ہیں |
| کہتے ہیں میرے درد کی کوئی دوا نہیں |
| محفل میں میرے ذکر پہ آنکھیں چُرا گیا |
| ظاہر یہ کر رہا تھا کہ اس نے سُنا نہیں |
| پھولوں کے ہار لے کے میں بیٹھا ہی رہ گیا |
| گذرا تھا میرے دل سے وُہ لیکن رُکا نہیں |
| بدلیں نہیں لکیریں مرے ہاتھ کی کبھی |
| ڈھایا ہے ظلم تُم نے جو وُہ بھی نیا نہیں |
| کب سے ہے میری آنکھ میں بس اس کا منتظر |
| آنسو وُہ اک خوشی کا جو اب تک گرا نہیں |
| مقبول، تیرا نام لے کر کہہ رہے ہیں لوگ |
| شاعر بنا ہے جب سے ، کہیں کا رہا نہیں |
معلومات