| کرنا اب کیا ہے بتا عشق میں خواہش کرکے |
| اپنے جذبات کی اس درجہ نمائش کرکے |
| تہمتیں خود ہی لگا کر ہے ستایا مجھ کو |
| اور اب رعب جماتا ہے یہ سازش کرکے |
| جب کبھی بات ہے کی تو نے وفا کی ساجن |
| تو سراہا ہے تجھے تیری ستائش کر کے |
| ہے چراغاں تو وجہ بھی کوئی لازم ہوگی |
| اتنا انجان نہ بن دل میں یوں تابش کرکے |
| چھوڑ بیکار کی باتوں کو مری بات تو سن |
| آ نہا لیتے ہیں جذبات کی بارش کرکے |
| میں نے کہنا تھا جو چاہت میں تری کہہ ڈالا |
| تو بڑھا بات کو اب اپنی سی کاوش کرکے |
| چاہتوں میں کٹے ٔ یہ سفرِ ذ ندگی ذیشاں |
| کرتا ہوں روز دعا اب یہ ہی نالش کرکے |
معلومات