| تیری پروا وہ بھلا کرتا ہی کیوں |
| تُو اسے اتنا میسّر تھا ہی کیوں |
| پھرنا ہی تھا درمیاں آ کے اسے |
| تو صنم گر نا خدا ہوتا ہی کیوں |
| شکوہ ہے اب ، بے وفا نکلا صنم |
| تُو محبت وادی میں کودا ہی کیوں |
| یاں، صنم کی تو روایت ہے ستم |
| تو وہ مجھ پر ، مہرباں ہوتا ہی کیوں |
| تھا پتا گر وہ سنے گا ہی نہیں |
| تو صنم کے در پہ ہو آیا ہی کیوں |
| تیری ہستی میں الم تھے کم بھلا |
| تُو محبت میں مگر الجھا ہی کیوں |
| بن گیا ہے اک تماشہ میرا دل |
| بے وفا پر دل لٹایا تھا ہی کیوں |
| جو یقیں تھا ہے خدا حاجت روا |
| بت کدے پر ، سر جھکا بیٹھا ہی کیوں |
| (زبیرعلی) |
معلومات