| نا پوچھو تم یہ مجھ سے کہ مرا قبضہ کہاں تک ہے |
| تسلط ہے زمیں پر اور رسائی آسماں تک ہے |
| مری منزل ہے ملکوتی مرا رستہ ہے لاہوتی |
| مسافر ہوں کہاں کا اور سفر میرا کہاں تک ہے |
| کسے رازِ نہاں کا علم ہو یہ بس بیاں تک ہے |
| کلامِ حق ابھی محدود حدً ترجماں تک ہے |
| بھلا ہم کیسے مستقبل سنواریں گے بنائیں گے |
| ہمارا حوصلہ اور عزم باقی داستاں تک ہے |
| زمانے بھر میں اپنی ذات کی بدنامیاں حاصل |
| یہ خوش فہمی میں تھا میں ، راز اپنا راز داں تک ہے |
| کہاں سے منزلیں حاصل ہوں ہم کو قافلہ والوں |
| ابھی تو جستجو اپنی امیرِ کارواں تک ہے |
| ہمی ہیں نائب خالق ، انالحق کی صدا ہیں ہم |
| مکاں ہی میں مکیں کیوں ہو مکاں تو لامکاں تک ہے |
| بہکنا مت کبھی خالدؔ نہ کہنا نفس کا سننا |
| ترا شجرہ مقدر سے نبی کے خانداں تک ہے |
معلومات