| اک دل کی فقط آشنائی کو ترسے |
| کبھی ملن کبھی جدائی کو ترسے |
| تم مل کر بھی نہیں ملتے ہو اب |
| اور ہم تو اس لب کشائی کو ترسے |
| کاشف برا سہی نہ کر بھروسہ مگر |
| یہ کیا کہ اسی ظالم کی گواہی کو ترسے |
| عشق میں کیسی خودی کیسی انا بچی یارو |
| قتل ہو کر بھی قاتل آگاہی کو ترسے |
| شوگر ہو چکی مگر کاشف نمکین لہجہ تھا |
| وہ دوائی کو ترسے ہم مٹھائی کو ترسے |
معلومات