رندوں کی مستی، ہے باد و جام وہی
ساقی کا صرفِ نظر اس کا دام وہی
تنہائی میں اور بڑھ جاۓ گا اپنا درد
پھیل رہی ہے رات ہے تام وہی
لوٹ آۓ گا وہ ، در کھلا رکھا ہے
دل بیتاب کا ہے خیالِ خام وہی
لیلہ باقی ہے اب نہ ہے ہیر کوئی
قیس و رانجھے نہیں ، باقی ہے بام وہی
خود کو ڈھونڈھ رہا ہوں مٹتے نقوش میں
لکھا تصویر پہ ہے افری نام وہی

0
20