| جب تیری داستان سنانے کا سوچتا ہوں |
| قلم کانپتا ہے ،دل لرزتا ہے،غم جاگتا ہے |
| پڑھنے والے کیا سمجھیں گے کیا قیامت گزری |
| کس طرح جدا ہوۓ تھے ہم، چوٹ لگی کتنی گہری |
| کچھ تو ہنسیں گے چند نظرانداز کر دیں گے |
| دنوں میں ہمیں، اور داستان بھول جائیں گے |
| مگر میں کیسے بھولوں کہ کس طرح زخم تازہ ہے |
| آج بھی ہجر میں نظر آتی ہو، محبت کا جنازہ ہے |
| کر رہا ہوں حوصلہ پیدا اگرچہ یہ ممکن نہیں |
| تجہےبھلا دوں اک پل بھی یہ ممکن نہیں |
| دن تھے بہار پر ، جوبن یار پر ، لمسوں کے طوفان پر |
| بیسوں سال پہلے کی بات تھی، کیسی انوکھی عجب وہ رات تھی |
| پہلا عشق، کانٹا لگ گیا، بھولنا ممکن کہاں ؟ |
| دل میں نقش اس اول چہرے کا ہی سب جہاں! |
| شب و روز تو گزر جائیں گے |
| کچھ ہںنستے روتے پل بھی آئیں گے |
| مگر تم سے جڑے وہ حسین پل وہیں کہیں رہ جائیں گے |
| اور انہی کے تعاقب میں زیست کو جی بھر کر جی جائیں گے |
| اے مکین دل کاشف، اے عشق کاشف |
| اے یاد رفتگان ماضی ، اے سکون دل و دماغ |
| عرصہ ہو چکا جب ملے تھے ہم |
| پر دل کو راضی کرنے کو وہ پل ہی کافی رہے گا |
| جب تم نے کہا تھا، " جیسی بھی ہوں، آپ کی ہوں" اور یہی عمر دوراں کے لئے ثمر بہار تحفہ گل ہے |
| یاد پیا کی بات جیا کی ہے |
| (تحریر : کاشف علی عبّاس ) |
معلومات