| گھونسلے دے کے پرندوں کو شجر کاٹتا ہے |
| کتنی آسانی سے امید کے پر کاٹنا ہے |
| وہ دیا جانتا ہے، کیسے سحر کاٹتا ہے |
| جیسے معذور پہاڑوں کا سفر کاٹتا ہے |
| چکھ لیا ایک نوالہ تو مرے گا تُو بھی |
| عشق وہ زہر ہے جو شیر و شکر کاٹتا ہے |
| پہلے اک عرصہ کئی سنگ تراشے تو ہی |
| پھر کوئی جوہری بنتا ہے، گُہر کاٹتا ہے |
| اے خدا کوئی سرائے دے مقیمِ راہ کو |
| اب مسافر کو ترے، اذنِ سفر کاٹتا ہے |
| کربلا چیخ کے کہتی نہیں سجدے میں حسین |
| اے خدا دینِ محمد کو شِمر کاٹتا ہے |
| دل میں رکھتا ہے جو حبِ علی کا پرچم وہ |
| چیر دیتا ہے الم خوف و خطر کاٹتا ہے |
| کیا مصیبت ہے کہ روکوں تو جگر چھلنی ہو |
| سانس لیتا ہوں تو، وہ بارِ دگر کاٹتا ہے |
| ایک سرحد ہے مرے سینے میں جس پر یہ دل |
| وہ محافظ ہے جسے جنگ کا ڈر کاٹتا ہے |
| ہجر بزدل کو بھی دیتا ہے وہ ہمت کہ حسیب |
| کاٹ سکتا نہیں شریان مگر کاٹتا ہے |
معلومات