| ۔ شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| تو روزِ ازل سے روشن ہے تابندہ ہے تابندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| لاریب نشانِ پیمبر ہے رخشندہ ہے رخشندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| عرفان کا دریا بہتا ہے ایماں کا محافظ رہتا ہے |
| ظالم کا نگر میں ہوتے بھی قرآن کی باتیں کہتا ہے |
| سائے میں فلسطیں کے جو بھی باشندہ ہے باشندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| ہم مر مٹنے کو تری خاطر تیار بھی ہیں بیدار بھی ہیں |
| اورساتھ ہمارےبچےہیں مجبوربھی ہیں لاچار بھی ہیں |
| پر شیخِ عرب پیسوں کا فقط سازنده ہے سازندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| دنیا سے مٹائیں گے کیسے دیوار گرائیں گے کیسے |
| تیری نوری نوری مٹی کو امبر میں اڑائیں گے کیسے |
| جب فیض و کرم کا نسلِ اُمم یابندہ ہے یابنده ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| تو ایسی زمیں ہے جس پہ سدا نبیوں کا گزرنا ہوتا تھا |
| اللہ اللہ کرنے والا تری جھولی میں سو جاتا تھا |
| اس واسطے یوں تو اونچی ہے تو زندہ ہے تو زندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| شاداب فلسطیں پھر ہوگا آئیں گی بہاریں پھر اک دن |
| دیکھے گا زمانہ رب کی قسم معمور نظاریں پھر اک دن |
| اس واسطے ہر مومن کا جگر نالنده ہے نالندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| جس جا پہ رسولِ اعظم نے نبیوں کی امامت فرمائی |
| جس جا کی تقدس کا خود بھی قرآنِ خدا ہے شیدائی |
| وہ آج کل اپنی رفعت کی جوئندہ ہے جوئندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| تو احمدِ مُرسل کا صدقہ خلاقِ دوعالم کا تحفہ |
| قرباں تجھ پر بچہ بچہ تو اہلِ نبوت کا ورثہ |
| رتبے میں امر نبيوں کا ثمر پائندہ ہے پائندہ ہے |
| ہم اہلِ وطن اقصٰی کی زمیں شرمندہ ہیں شرمندہ ہیں |
| غلام احمد رضا نیپالی |
معلومات