| ہائے افسوس کہ کیا ہوں ابھی اور کیسا ہوں |
| عمر سے خود کی میں کچھ اور بڑا لگتا ہوں |
| نہ مروت نا محبت نا کوئی لطف و وفا |
| میں اسی یار پہ سب اپنا لٹا بیٹھا ہوں |
| وہ مجھے کانچ کی گڑیا کی طرح لگتی ہے |
| میں اسے ہاتھ لگانے سے بھی ڈر جاتا ہوں |
| اس کی بکھری ہوئی زلفیں مجھے لگتی ہے گھٹا |
| اسکی آنکھوں کو دھڑکتا ہوا دل سمجھا ہوں |
| میرا اندازِ وفا ان کو سمجھ آ جائے |
| پھر تو وہ بھی یہی بولے گے کے کیا لڑکا ہوں |
| کیسی حیرت ہے کہ حاصل نہیں قطرہ خالدؔ |
| ایک دریا ہے مرے سامنے ، میں پیاسا ہوں |
معلومات