ایک کر لیں تو تعلق نہیں دوجا کرتے
دودھ میں پانی ملا کر نہیں بیچا کرتے
زندگی سب کی سمجھ میں نہیں آنے والی
یہ فرشتے تو سبھی پر نہیں اترا کرتے
پھر بچھڑنے کا مجھے دکھ نہیں ہوتا کوئی
تم جدا ہونے سے پہلے اگر اپنا کرتے
مجھ کو اک شخص کے ملنے کی ہے خواہش ایسے
جس طرح قیدی رہائی کی تمنّا کرتے
موم کو دھوپ کی چاہت نے فنا کر ڈالا
رہ گئے ہم یہاں دیوار سے سایہ کرتے
آج مغرور ہے وہ اپنے قد و قامت پر
ہم کو عرصہ لگا جس قطرے کو دریا کرتے

2
99
جناب، خوب غزل ہے۔ البتہ اس شعر:
زندگی سب کی سمجھ میں نہیں آنے والی
یہ فرشتے تو سبھی پر نہیں اترا کرتے
میں مکمل ابلاغ نہیں ہے، میری رائے میں "فرشتے تو" کی بجائے "صحیفے تو" یا "مضامین" بہتر ہے۔۔۔

@Hatim بہت شکریہ حاتم صاحب۔

0